عابد علی: پاکستانی اوپنر کا ٹیلنٹ پرکھنے کے لیے صرف چار گیندیں کافی

عابد علی: پاکستانی اوپنر کا ٹیلنٹ پرکھنے کے لیے صرف چار گیندیں کافی


انٹرنیشنل کرکٹ میں آنے کے بعد عابد علی جس مستقل مزاجی سے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کے بعد یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ انھیں پاکستانی ٹیم سے اتنا عرصہ دور کیوں رکھا گیا؟

عابد علی انٹرنیشنل کرکٹ میں آتے ہی تاریخ ساز بلے باز بن چکے ہیں۔ وہ دنیا کے پہلے بلے باز ہیں جنھوں نے اپنے اولین ون ڈے انٹرنیشنل اور ٹیسٹ میچ میں سنچری سکور کی ہے۔

سابق کپتان رمیز راجہ کہتے ہیں کہ انھیں اس بات پر حیرانی ہے کہ عابد علی پہلا انتخاب کبھی نہیں رہے مطلب یہ کہ کوئی ان فٹ ہو گا یا آؤٹ آف فارم ہو گا تو ان کا نمبر آئے گا۔

سوال یہ ہے کہ ٹیلنٹ کو پرکھنے والی آنکھ کہاں ہے؟ عابد علی جیسے بیٹسمین کو آپ نیٹ میں یا میچ میں صرف چار گیندیں کھیلتا دیکھ لیں تو آپ کو آئیڈیا ہو جاتا ہے کہ ان کی کیا کلاس ہے۔
رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عابد علی کو ستائیس اٹھائیس سال کی عمر میں دیکھ لیا جاتا اور انٹرنیشنل کرکٹ میں موقع دے دیا جاتا۔

عابد علی کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے ہنستے مسکراتے چیلنج قبول کیا ہے اور یہ شکوہ نہیں کیا کہ وہ دس سال تک فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے ہیں۔
دراصل یہ ان کرکٹرز کے لیے بہت اچھی مثال ہے جو ڈومیسٹک کرکٹ میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ شاید ان پر بھی سلیکٹرز کی نظر پڑ جائے۔

رمیز راجہ نے جہاں ایک جانب عابد علی کی خوبیاں گنوائی ہیں تو دوسری جانب انھوں نے پاکستان کے ڈومیسٹک سسٹم میں پائی جانے والی اس خرابی کو بھی اجاگر کردیا ہے جس میں تواتر کے ساتھ پرفارمنس دینے والے کرکٹرز کے لیے طویل انتظار ہے اور ان میں سے بیشتر انٹرنیشنل کرکٹ میں آنے سے رہ جاتے ہیں۔
عابدعلی سنہ 2007 سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں اور اس عرصے میں وہ بیس سنچریاں سکور کر چکے ہیں جن میں چار ڈبل سنچریاں بھی شامل ہیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Recent Post By Labels

Recent Post By Labels